پس منظر
ندوستان سے منتقل ہوکرموریشس آنے والوں کے ساتھ جو زبا نیںآئیں ان میں اردو بھی ایک ہے۔ یہ بطور مسلمانوں کی زبان پروان چڑھی اور مسلمانوں نے اسے نہ صرف مذہبی تعلیم کا ذریعہ بنایا بلکہ اپنی تہذیب و ثقافت کے اظہار کے لیے بھی اس کا استعمال کیا۔ یہ زبان ۱۹۵۳ ء سے ابتدائی اسکولوں میں پڑھائی جارہی ہے۔ بعد ازاں یہ ثانوی اسکولوں میں بھی پڑھائی جانے لگی۔ مگر آج یہ ایم ۔ اے میں بھی بطور مضمون موجود ہے۔ اردو کے تئیں حکومت کی مسلسل کوششوں اور عوامی لگاؤ کا نتیجہ ہے کہ ٓج اردو اس مقام پہ ہے۔
بیسویں صدی کی ابتداء سے اردو کی ترقی اور بقا کے معاملے کوموریشیائی قوم میں مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی شناخت کے ساتھ جوڑا جاسکتا ہے۔ مگر اردو کے حوصلے اور آرزوئیں اس سے کہیں زیادہ تھیں۔اس کو محض مذہبی ضرورت اور شناخت سے اوپر اٹھنا تھا۔ نیز اسے علمیت اور تخلیقیت دونوں کو جنم دینا تھا۔ ان سب کے حصول کے لیے اردو کو ایک ایسے اداریاتی نظام کی ضرورت تھی جو ملک میں موجود تمام محرکاتی عناصر کو یکجا کر سکتا ہو اور ساتھ سا تھ صلاحیتوں اور مضمر قوتوں کے اظہار کے لیے ایک پلیٹ فارم عطا کرتا ہو۔
لہٰذا مرحوم پروفیسر اطہر پرویز ، آ ئی ٹی ای سی افسر ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، انڈیا اور جناب عنایت حسین عیدن کی ابتدائی کوششوں ، مرحوم عزت مآب سر عبدالرزاق محمد (جو مسلمانوں کے نامور رہنما تھے) ، مرحوم جناب عبد اللہ کریم جی اور جناب احمد عبد اللہ احمد سی بی ای، جی او ایس کے اور دیگر اردو شائقین کی مخلصانہ امداد اور نیک خواہشات کا نتیجہ تھا کہ ذی نیشنل اردو انسٹی ٹیوٹ کا قیام عمل میں آیا۔ اس ادارے کی افتتاحی تقریب ۱۸ ستمبر ۱۹۷۰ ء کو عمل میں آئی۔ مرحوم عزت مآب سر عبد الرزاق محمد اس کے اولین سر پرست تھے اورمرحوم عزت مآب سر سیوساگررام غلام( موریشس کے اولین وزیرِ اعظم ) اس کے سرپرستِ اعلاتھے۔ذی نیشنل اردو انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے ساتھ ہی موریشس میں اردو کی ترقی کا ایک نیا باب کھلا۔