پس منظر
اٹھارہ ستمبر۱۹۷۰ء ، اردو زبان و ادب کی تدریس و مطالعہ میں ایک نقطۂ انقلاب تاریخ ہے۔ جناب عنایت حسین عیدن، ایک با وقاراور فاضل نوجوان، اولوالعزم اور ارادوں کا پکّا،اردو میں ایم اے کی ڈگری مکمّل کرنے کے بعدعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے لوٹے۔
ڈاکٹراطہر پرویز، ایک دوسرے باکمال عالم و فاضل ، حکومتِ ہند کے تعاون سے سرزمینِ موریشس میں ٹیچر ٹریننگ کالج میں بر سرِ روزگار تھے۔ آپنے نے اپنے شاگرد محترم عنایت حسین عیدن سے ملاقات کی۔ ان کے دماغ میں اردو کی ترویج و اشاعت کے لئے ایک ادارہ قائم کرنے کی ترکیب ابھر آئی۔
مرحوم سر عبد الرزاق محمداور چند عظیم الشان مسلمان تاجروں کی مددسے، ذی نیشنل اردو انسٹی ٹیوٹ پلین ورٹ، پورٹ لوئی میں ۸ا ستمبر۱۹۷۰ء قائم ہوا۔ اس چھوٹے سے ادارہے نے اپنا جلوہ دکھایا اور تمام اردو چاہنے والوں کا گہوارہ بنا۔ یہ سفرِ اردو کا ایک قابلِ داد قدم رہا۔
موریشس کے گونر جنرل مرحوم سر عبدل رحمٰن عثمان اوروزیرِ اعظم مرحوم سر سیوساگر رام غلام ،اس ادارے کے سرپرست ہوئے۔ مرحوم جناب عبداﷲکریم جی ادارے کے پہلے صدر بنے۔ پھر مرحوم جناب عبداﷲاحمدنے جوایک مدّت تک صدارت کا شوق حاصل کی جو ایک مدّت تک بڑی محنت کے ساتھ صدر رہے ۔ جنرل سکریٹری جناب عنایت حسین عیدن بنے۔ اس زمانے میں عیدن صاحب ٹیچر ٹریننگ کالج کے لکچرار تھے۔ نائب صدر ڈاکٹر فقیم اور جناب احمد کاتردا تھے۔ جناب اسحاق جونس کو خزانچی کا ذمّہ سونپا گیا تھا۔ اس کے دوش بدوش کمیٹی میں محترم ایس واؤدا، ایچ حیات، اس بھیت اور وائی محمد۔ ان افراد نے بہ حسنِ خوبی اس ادارے کو چلایا۔ وہ کبھی بھی اس آبائی زبان کی ترقّی کے لئے پیسے خرچ کرنے میں نہیں ہچھکچائے۔ عاشقانِ اردو نے بھی کئی مذہبی و ادبی سرگرمیاں لوگوں تک پہنچائیں اور مفت میں درسِ اردو دقائم کیا بنام ابتدائی، ادیب، ادیب ماہر اور ادیب کامل۔ اسکول سرٹیفکیٹ اور جی سی ای امتحانات اس ادارے کے مضبوط رکن تھے۔ اردو کیدیگر عالم و فاضل نے اس ادارے سے اپنا راستہ تراشا اور اپنی اپنی منزل تک پہنچے۔ اس وقت اردو کا مطالعہ صرف مذہب سے جڑا ہوا تھا ۔ اب خوش قسمتی سے مذہب کے دائرے سے نکل کر زبان و ادب کی گہری معلومات میں پھیل گئی ہے۔






















